تقلید کریں مگر دلیل معلوم کرنے کے بعد
تقلید کریں مگر دلیل معلوم کرنے کے بعد
اس نے کہا کہ میں تقلید اور فقہاء سے حکم شرعی لینے کا مخالف نہیں ہوں لیکن عوام کےلئے ضروری ہے کہ وہ فقیہ سے فقط حکم شرعی نہ پوچھیں بلکہ دلیل بھی پوچھیں اور پھر پرکھیں جس فقیہ کی دلیل درست ہو اس کے مطابق عمل کریں ۔
🌟سبحان اللہ ۔۔۔ مطلب عوام عوام نہیں بلکہ فقیہ کی استاد ہوگئی کہ وہ فیصلہ کرے گی کہ کونسے فقیہ کی دلیل درست ہے ۔۔۔
🌹میرے بھائی!
❓عوام کیسے فیصلہ کرے گی کہ کونسا ترجمہ درست ہے اور کونسا درست نہیں ؟
❓اسی طرح عوام کیسے فیصلہ کرے گی کہ اس حدیث سے فتوی دینا درست ہے یا غلط ہے ؟
❓عوام کیسے فیصلہ کرے گی کہ بکر بن حبیب کیا مجھول راوی ہے یا ثقہ راوی ہے؟
❓عوام کیسے فیصلہ کرے گی کہ اس روایت کو دوسری روایت پر مقدم کرنا کیسے درست ہے؟
مثال کے طور پر:
1⃣وضوء میں دوسری دفعہ دھونا جائز نہیں ہے ۔ امام خمینی رح ۔
2⃣وضوء میں دوسری دفعہ دھونا مستحب ہے۔ قدیم فقھاء
3⃣وضوء میں دوسری دفعہ قصد رجاء سے دھوئیں ۔ سیستانی ۔
روایات:
(از۔ وسائل الشيعة، ج1، ص: 438 پہلی جلد ابواب الوضوء کا مطالعہ فرمائیں۔)
✔1:امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ص وضوء میں ایک ایک دفعہ دھوتے تھے جو اس سے زیادہ دھوئے اس کی نماز قبول نہیں ۔
✔2:امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ کہ وضوء میں رسول اللہ دو دفعہ دھوتے تھے اور اے زرارہ تم دو دفعہ دھویا کرو۔
✔3:امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ وضوء ٰمیں دوسری دفعہ دھونے پراجر نہیں ملتا۔
✔4:امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ وضوء میں دوسری دفعہ دھونا افضل ہے ۔
۔۔
اب عوام کیسے فیصلہ کرے گی کہ کونسی روایت درست ہے اور کونسی غلط؟
۔۔
👍پس عوام فقط اتنا دیکھے کہ کونسا فقیہ ماہر ترین فقیہ ہے اور عادل ہے اور ہمیں احکام شرعی قرآن و حدیث سے نکال کر دیتا ہے ۔ ان شرائط کے طے ہوجانے کے بعد عوام فقھاء پر اعتماد کرتی ہے ، جیسا کہ ملکی کے قوانین میں عوام ماہر قانون پر اعتماد کرتی ہے اور اس کی قانونی مشاورت پرعمل کرتی ہے ، نہ کہ اس سے قانون کے دلائل و حوالہ جات پوچھ کر خود سے فیصلہ کرنے بیٹھ جاتی ہے ۔ اسی طرح اسلام کا وسیع تر قانون ہے اور اس میں بھی عوام ماہر ترین فقھاء اسلام پر اعتماد کرتی ہے نہ کہ ان سے دلائل از قرآن و سنت پوچھ کر خود سے نیم ملا خطرہ برائے دین بن کر فیصلہ کرنا شروع کر دے اور دین سمجھنا شروع کر دے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی